یَاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاتِیْ اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ (المائدۃ:۵۴)
’’اے ایمان لانے والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے ایسے لوگ پیدا کردے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ انہیں محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے۔ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ تو وسیع ذرائع کا مالک اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
تمام ہدایتیں ملنے کے باوجود اگر کوئی راہ راست پر نہیں آتا تو نہ آئے اللہ کو بھی پھر اس کی پروا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود ایسے لوگوں کے بارے میں فرمادیا کہ اگر کوئی اپنے دین سے پھر گیا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کچھ اور لوگوں کو لے آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ مسلمان اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دین سے پھر گئے تو اللہ تو بے نیاز ہے۔ وہ اگر اس کی ہدایتوں پر عمل نہ کرتے تو اللہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا اور پھر کوئی دوسری قوم ایمان لے آئے گی اور یہ لوگ اس قوم کے ہاتھوں مٹا دیے جائیں گے۔ اور وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ یہ مقام دے گا وہ اس سے محبت کرنے والے ہوں گے اور اللہ بھی ان سے محبت کرے گا۔ اور کفار پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ایمان کی پختگی، دینداری اور اخلاقی قوت کی وجہ سے مخالفین اسلام کے سامنے پتھر کی چٹان کی مانند ہوں گے۔ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتے رہیں گے۔ تمام رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر دین قائم کرکے رہیں گے اور وہ کسی برا بھلا کہنے والے کے ڈرسے اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے۔