ریلوے اسٹیشن میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہوگا۔وہ جس ڈبے میں سوار ہوا، اس میں کوئی تیسرا مسافر نہیں تھا۔ اس کے علاوہ صرف ایک نوجوان لڑکی ساتھ والی نشست پر بیٹھی تھی۔ وہ اپنے سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں کی وجہ سے ایک گڑیا معلوم ہورہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی معصومیت تھی۔
اس شخص نے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ لڑکی نے انگوٹھی پہن رکھی ہے یا نہیں، مگر وہ اس میں ناکام رہا کیونکہ لڑکی کا ہاتھ اس کتاب کے نیچے تھا، جسے وہ پڑھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر معصومیت کے ساتھ ساتھ ذہانت کے آثار بھی نمایاں تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ عورتوں کی اس قسم سے تعلق نہیں رکھتی جو بہت جلد خوفزدہ ہوجاتی ہے۔
آدمی نے اپنی گھڑی پر وقت دیکھا۔ اگر گاڑی اسی رفتار سے چلتی رہی تو اسے اگلے اسٹیشن پر پہنچنے میں صرف سولہ منٹ لگیں گے۔ اسے یقین تھا کہ پولیس ریلوے اسٹیشن پر انتظار کررہی ہوگی اور جیسے ہی وہ گاڑی سے اترے گا، اسے فوراً گرفتار کرلیا جائے گا۔ گرفتاری کا خیال آتے ہی اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔
وہ ایک آدمی کو قتل کرکے بھاگ رہا تھا، لیکن درحقیقت وہ اپنے آپ کو قاتل نہیں سمجھتا تھا۔ بدنصیب آدمی عین اس وقت سامنے آکر دروازے میں کھڑا ہوگیا جب وہ رقم کا تھیلا لے کر بینک سے فرار ہونے لگا تھا۔ وہ بے چارہ اسے پکڑ کر ہیرو بننے کی کوشش کررہا تھا، اس لیے اسے مجبوراً گولی چلانی پڑی جو اس آدمی کے سر میں لگی اور وہ موقع ہی پر ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے ایک ہوائی فائر کیا اور لاش پر سے گزر کر مین گیٹ بند کردیا اور شہر کے ہجوم میں گم ہوگیا۔
بظاہر اس کی بینک ڈکیتی کامیاب رہی تھی، لیکن قتل والا واقعہ اسے بہت پریشان کررہا تھا۔ وہ شہر کی پولیس سے چھپتا ہوا اس ریل گاڑی میں آسوار ہوا، مگر چونکہ اسٹیشن پر موجود پولیس نے اسے چلتی گاڑی کے ایک ڈبے میں سوار ہوتے دیکھ لیا تھا، اس لیے اسے پکا یقین تھا کہ اگلے اسٹیشن پر گرفتار کرلیا جائے گا۔
اب اس کے پاس صرف بارہ منٹ تھے۔ ’’مس! کیا آپ کے پاس پنسل ہوگی؟‘‘ اس نے اونچی آواز میں لڑکی سے پوچھا۔
لڑکی نے جواب دیا: ’’جی، میرے خیال میں ہے۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے پرس سے ایک سنہرے رنگ کی پنسل نکال کر اسے پکڑا دی۔
اس نے لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر اس پر لکھنا شروع کردیا:
’’مس! آپ کو میری وجہ سے تھوڑی سی زحمت اٹھانی پڑے گی۔ میری جیب میں ایک پستول ہے۔ آپ گھبرائیں نہیں، آپ کا بال بیکا نہیں ہوگا۔ میں جو کہوں وہی کیجیے۔ ریل گاڑی کی رفتار کم ہوتے ہی میں وہ پستول آپ پر تان لوں گا۔ اس طرح چلتے ہوئے ہم گاڑی سے باہر چلے جائیں گے۔باہر پولیس موجود ہوگی۔ میں پولیس والوں کو خبردار کردوں گا کہ اگر کسی نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو میں اس لڑکی کو گولی مار دوں گا۔ وہاں اسٹیشن کے باہر میرا دوست پہلے سے کار لیے میرا منتظر ہوگا۔ اگر وہ نہ پہنچا تو ہم ٹیکسی لے لیں گے۔ آپ میرے پہلو میں ہوں گی، اس لیے پولیس میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ ہم آرام سے کار یا ٹیکسی میں بیٹھ جائیں گے اور جب وہ پولیس کی پہنچ سے دور ہوجائے گی تو آپ کو نیچے اتار دیا جائے گا۔‘‘
آخری فقرہ لکھنے کے بعد اس نے پرچی کتاب کے اس صفحے پر لڑکی کے آگے کردی جسے وہ پڑھ رہی تھی۔ لڑکی نے رقعہ پڑھا اور کچھ سوچنے کے بعد واپس اسے تھما دیا۔ اس نے سوچا شاید لڑکی کو اس کی بات پر یقین نہیں آرہا ، اس لیے اس نے جیب سے پستول نکال کر اسے دکھایا، مگر لڑکی کا چہرہ خوف سے یکسر پاک تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے لڑکی سے پوچھا: ’’شاید یہ کتاب بڑی دلچسپ ہے، اس لیے آپ اسے اتنے شوق سے پڑھ رہی ہیں۔‘‘
لڑکی نے جواب دیا: ’’جی ہاں، یہ کتاب دلچسپ اور حیرت انگیز کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے، جن میں انجام پڑھنے والوں کی توقع کے خلاف ہوتا ہے۔‘‘
چونکہ دھوپ کھڑکی سے ہوکر سیدھی اس خاتون کی آنکھوں پر پڑ رہی تھی اس لیے اس نے اسے کھڑکی بند کرنے کو کہا۔ وہ آرام سے اٹھا اور تھوڑی سی زور آزمائی کے بعد وہ کھڑکی بند کرنے میں کامیاب ہوگیا اور مڑکر دوبارہ نشست پر بیٹھ گیا۔
لڑکی نے وہ کہانی نکال کر اسے کتاب پکڑا دی جو وہ خود پڑھ رہی تھی۔ اس نے کتاب لے کر کہانی پڑھنی شروع کی۔ یہ کہانی ایک ایسے قاتل کے بارے میں تھی جو ریل کے ڈبے میں موجود ایک لڑکی کو یرغمال بنانے کے لیے پستول نکالنے لگا تھا، مگر اسے اس وقت بڑی پریشان کن صورت حال کا سامنا کرناپڑا جب لڑکی نے اسی کا پستول نکال کر اس پر تان لیاتھا۔
اس نے کتاب سے اپنا سر اوپر اٹھایا، لیکن کتاب اس کے ہاتھ سے گر پڑی کیونکہ جو منظر اس نے ابھی ابھی کتاب میں پڑھا تھا وہی اب اس کے سامنے تھا۔ لڑکی نے اس پر وہی پستول تان رکھا تھا جو کچھ دیر پہلے اس کی اپنی جیب میں تھا۔
لڑکی کا چہرہ اب بھی اسی طرح معصوم تھا۔ اس نے دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’مسٹر! یہ پستول آپ ہی کا ہے، جب آپ کھڑکی بند کررہے تھے تو میں نے اسے نکال لیا تھا۔‘‘
ریل گاڑی آہستہ آہستہ رکنے لگی اور اسٹیشن پر موجود پولیس قاتل کے استقبال کے لیے ڈبے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
——




