• نیک توقعات

    تحریر : امل عبدالستار ، ترجمہ: روید خان، علی گڑھ

    نیک توقعات سے وابستہ رہنا سنت نبویؐ اور انصاف پسند نفوس کی ایک بہترین صفت ہے،جس کا انسان کے اعمال…

  • صبر و استقامت

    تحریر: امل عبدالستار عربی سے ترجمہ: روید خان، علی گڑھ

    زندگی کے دباؤ کو برداشت کرتے کرتے ہم ٹوٹ جاتے ہیں اور ہمارے جذبات و احساسات میں منفی پہلو نمایاں…

  • رول ماڈل

    تحریر: ڈاکٹر امل عبدالستار / ترجمہ: روید خان

    ایک شخص کا دوسرے شخص کی پیروی کرنا اور اس کا اثر قبول کرنا رول ماڈل کہلاتا ہے، کیونکہ نمونہ…

  • مثبت سوچ

    مثبت سوچ کامیاب زندگی کی بنیاد ہے جبکہ مضبوط و مستحکم ارادہ انسان کو مقاصد کی طرف کامیابی کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔ انسانی عقل پر جومتعدد نوعیت کی تحقیقات ہوچکی ہیں ان میں سے ایک کا نتیجہ یہ سامنے آیاہے کہ انسانی دماغ سے روزانہ۶۰ ہزار افکار کا گزر ہوتا ہے اور ان میں سے ۸۰ فیصدافکار منفی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ چینی فلسفی لاوتزو کا کہنا ہے :اپنے افکار کا خیال رکھو، کیونکہ تمہاری زبان سے نکلنے والے الفاظ وکلمات انہی افکار کی ترجمانی کرتے ہیں اور اپنے الفاظ کے استعمال میں محتاط رہو ، کیونکہ اس کی جھلک تمہارے عمل میں دکھائی دیتی ہے۔اپنےاعمال کے تعلق سے بھی چوکنا رہو کیونکہ یہی اعمال تمہاری عادت کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنی عادتوں کی دیکھ بھال بھی ضروری ہے کیونکہ یہی شخصیت کا روپ دھار تی ہے۔ اپنی شخصیت سازی میں احتیاط سے کام لو، کیونکہ اسی سےتمہارا انجام طے پاتا ہے ،لہٰذا اپنی ذات سے اچھی توقعات وابستہ رکھو۔ حدیث قدسی ہے :’’قال اللہ تعالى انا عند ظن عبدي بي إن ظن خيرا فله وإن ظن شرا فله" [بخاری :۷۴۰۵] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کی سوچ کے مطابق ہوتا ہوں، اگر میرے بارے میں اس کی سوچ اچھی ہے تو اس کو بھلی چیز میسر ہوتی ہے اور اگراس کی سوچ بری ہے تو بری چیز اس کو میسر آتی ہے ۔ دل میں بہت سے ایسے خیالات آتے ہیں جو حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں،اس لیےکہ افکار ہی ارادہ کا محرک اول ہیں، اورپختہ ارادہ ہی سےاصل قوت حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا هو مولانا وعلى الله فليتوكل المومنون ‘‘[توبۃ:۵۱] اے نبی کہہ دیجیے ،ہمیں جو کچھ بھی لاحق ہوتا ہے ،وہ اللہ تعالی لکھ چکا ہے ،وہ ہمارا کارساز ہے اور مومنین صرف اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں ۔ نتائج صرف اور صرف انسانی ارادہ پر ہی موقوف ہوتے ہیں ،اس لیے کہ اللہ تعالی نے تمہیں اختیار کی کنجی دے رکھی ہے ۔اللہ پر تمہارا جتنا زیادہ یقین اور حسن ظن ہوگا اسی کے مطابق تمہارے ارادے پورے ہوتے رہیں گے ۔ہم پر لازم ہے کہ ہر حالت میں اللہ ہی کی ذات کو حقیقی کارساز سمجھیں ،رب ذوالجلال کا ارشاد ہے:وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۲۹ۧ [التکویر: ۲۹]اور تمہارےچاہنےنہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔اس آیت سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ بندے کا ارادہ اللہ تعالی کی مشیت کے ماتحت ہی ہوتا ہے۔اختیار کی کنجی تمہارے ہاتھ میں ہے چاہے تو اس سے خیر کا تالا کھولیں یا شر کا ،اسی طرح جو مثبت پہلو آپ کےاندر ہے وہی آپ کے مثبت افکار کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے،نیز جذبات ،افکار اور احساس کو جلا بخشتا ہے، جس کا عکس مثبت طریقے سے آپ کے شعور ووجدان،چال چلن اور آپ کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن مجید ہمارے لئے مثبت اینرجی کا وہ خزانہ ہے ،جو ہمیں فکری طاقت فراہم کرتا ہےچنانچہ جب تک قرآن سے ہماری سوچ اور فکر کا رشتہ جڑا رہےگاتب تک قرآن ہماری سوچ کی حفاظت بھی کرےگا اور ہمارے دل میں کھٹکنے والے ہر سوال کا تشفی بخش جواب بھی فراہم کرتا رہے گا ،چنانچہ اللہ تعالی کا ارشادہے: مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِيْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۚ يَصْلٰىہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۱۸ [الاسراء:۱۸] جو صرف دنیا کا طالب ہوتا ہے ،ہم اس کے لیے اسی میں جس قدر چاہتے ہیں اور جس کے لیے چاہتے ہیں اضافہ کردیتے ہیں ،بالآخر اس کے لیےہم نے جہنم تیار کر رکھی ہے ،جس میں وہ خوار اور شکست خوردہ ہوکر داخل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے انسان کی ہر اچھی امید پوری ہوتی ہے ،لیکن جو شخص اللہ تبارک و تعالی سے بےگانہ ہوکر زندگی گزارتا ہے ،اس کی مدت حیات کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو ،عنقریب وہ اپنےبرے اعمال کا نتیجہ اپنے سامنے پائے گا ۔ انسان واحد ہستی ہے جسےاللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنےاور اس پر ایمان لانے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ ہر انسان اپنے اندرون کی دنیا کامالک ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگرکبھی آپ تکلیف دہ صورت حال سے دوچارہیں اور تھوڑی دیر بعد آپ کو خوشی کی خبر موصول ہوتی ہے تو خبر ملتے ہی آپ کے احساس میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جذبات و احساسات حالات اور وقت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں ۔ اس لئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ آپ کے اندر کی دنیا ہی خارجی دنیا میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ آپ کے تخیلات ہی باہر ی دنیا میں آپ کے نقطۂ نظر کی عکاسی کرتے ہیں ۔ زندگی کے چیلنجز انسان پر اثر انداز ہوکر صرف کمزور انسان کو شکست دےسکتے ہیں مضبوط کو نہیں کیونکہ اس کی مثبت سوچ اسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی نئی راہیں سجھا دیگی ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی ذات کو اور اپنے ذہن و دماغ کو اندرونی نجاست سے پاک و صاف کریں اور اس کے حصول کا ذریعہ صرف اور صرف اللہ پر ایمان ،اس کے ساتھ حسن ظن اور اس پر یقین کامل ہے ۔ اے انسان اگر تواللہ سے لو لگا کر اس کا تقرب حاصل کرسکتا ہے تو ایسا ضرور کر،کیونکہ اس کی ذات تومافوق العادات کی مالک ہے،تمہارا مطالبہ تو ایسی ذات سے ہے جو تمہیں داخلی قوت عطا کرے گا اورداخلی قوت تمہارے اندر مثبت خیالات کو پروان چڑھائے گی، تیری ہستی ہی واحد ہستی ہے جس سے اپنے نفس کے بارے میں سوال کیا جائے گا ،جب تو بہتر سے بہتر عمل کرنے کی نیت کرے گا ،تو اللہ اس میں تیری معاونت فرماے گا ،چنانچہ ارشاد ربانی ہے اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ (الرعد: 11) خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

حالیہ شمارے