حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐکا گزرچند بیٹھے ہوئے لوگوںپر ہوا،آپؐ نے رک کر فرمایا : کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سے اچھا کون اور برا کون ہے؟ سب لوگ خاموش ہوگئے، آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی تو ایک شخص نے کہا کیوں نہیں اللہ کے رسولؐ ،آپ ہمیں بتائیں، ہم میں سے اچھا کون اور برا کون ہے؟آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے اچھا وہ ہے جس سے خیر کی امید رکھی جائے اور اس کے شر سے اپنے آپ کومحفوظ سمجھا جائے اورتم میں سے برا وہ ہے جس سے خیر کی امید نہ رکھی جائے اور اس کے شر سے اپنے آپ کومحفوظ نہ سمجھا جائے‘‘(جامع ترمذی )
اس حدیث میں اچھے اور برے شخص کے درمیان فرق کرنے کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا ،وہ یہ ہے کہ اگر لوگ کسی شخص سے اچھائی،نیکی اور فائدے کی توقع رکھیں،اس کی برائی،زیادتی اور نقصان سے اپنے آپ کو محفوظ ومامون سمجھیں۔اس سے بے خوف ہوکر رہیں تو یہ شخص اچھا آدمی کہلانے کا حق رکھتا ہے اس کے برعکس جس شخص سے خیر کی توقع ہی نہ ہو، بلکہ اس کے شر کا ہر وقت خوف اور ڈر لگا رہے تو یہ شخص برا اور شریر کہلائے گا۔اسی لیے عوام الناس کے درمیان لوگوں کے حوالے سے پایا جانے والا عمومی رویہ ہی اچھا یا برا کہلانے کے لیے معیار بنتا ہے۔یقیناً اللہ کی عدالت میں بھی کامیابی کے لیے یہی معیار ہے۔