فرانسیسی فیشن ماڈل ’’فابیان‘‘ اٹھارہ سال کی نوجوان لڑکی ہیں، جب وہ دولت و شہرت، ترغیب و تشویق اور شور شرابے کے سمندر میں غرق تھیں وہ خاموشی سے اس راستے سے واپس آگئیں۔ اس دنیا کو اس کے متعلقات کے ساتھ ترک کردیا اور افغانستان چلی گئیں تاکہ وہ سخت و مشکل ترین حالات میں زخمی افغان مجاہدین کی تیمار داری کرسکیں۔
فابیان کہتی ہیں: ’’اگر مجھ پر اللہ کافضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو میری زندگی ایک ایسی دنیا میں ضائع ہوجاتی، جس میں انسان مجرد جانور بن جاتا ہے، اس کا ہر ارادہ بغیر اقدار و اصول کے محض اپنی شہوات و خواہشات کی تکمیل ہوتا ہے۔‘‘
پھر وہ اپنا قصہ اس طرح بیان کرتی ہیں: ’’میں اپنے بچپن سے چاہتی تھی کہ میں ایک رضا کار نرس بنوں، اور بیمار بچوں کی تکلیفیں دور کروں۔ مگر جب زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ میں بڑی ہوگئی تو میری نگاہیں اپنی خوبصورتی پر مرکوز ہوگئیں۔ اسی کے ساتھ میرے اہلِ خانہ نے مجھے میری بچپن کی خواہش سے نکال کر اپنی خوبصورتی کو ایک ایسے کام میںاستعمال کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی، جس سے مجھے بے انتہا مادّی منافع اور دولت و شہرت کے علاوہ وہ تمام چیزیں حاصل ہوتیں جن کا ایک نوجوان لڑکی خواب دیکھتی ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے ناممکنات بھی کر گزرتی ہے۔
میرے لیے یہ راستہ نہایت ہی آسان تھا یا مجھے ایسا محسوس ہوا۔ میں نے نہایت تیزی سے شہرت کا مزہ چکھا اور ان قیمتی ہدایا و تحائف نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا، جن کے بارے میں میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔لیکن ان کی قیمت نہایت گراں تھی۔ سب سے پہلے میرے لیے لازمی تھا کہ میں انسانیت کے جامے سے باہر آجاؤں اور کامیاب و کامرانی کی شرط یہ تھی کہ میں اپنے احساس و شعور سے عاری ہوجاؤں اور اپنی اس حیاء و شرم کو لپیٹ کر رکھ دوں جو فطری طور پر مجھے دی گئی تھی اور ہر لڑکی کو دی جاتی ہے۔ اپنی ذہانت وفطانت کو کھودوں اور اپنی جسمانی حرکات و سکنات اور موسیقی کے سروں کے سوا کچھ اور سمجھنے کی کوشش نہ کروں۔ اسی طرح مجھ پر یہ لازم تھا کہ میں تمام لذیذ کھانے کی اشیاء ترک کرکے صرف کیمیائی وٹامنس اور ٹانکس پر اپنی زندگی بسر کروں اور ان تمام چیزوں سے پہلے لازمی تھا کہ میں اپنے بشری احساسات و شعور کو بھول جاؤںؤ میں نہ نفرت کروں اور نہ محبت، نہ افسوس کروں اور نہ کسی چیز کا انکار۔
یقینا فیشن ہاؤسز نے مجھے مجرد ایک متحرک بت بنادیا تھا، جس کا کام صرف دلوں اور ذہنوں سے کھلواڑ کرنا ہوتا ہے… پس میں نے سیکھ لیا تھا کہ کس طرح میں بالکل سرد اور اندر سے کھوکھلی ہوجاؤں۔ میں صرف ایک فریم بن کر رہ گئی تھی، جس پر لباس چڑھے ہوئے ہوتے ہیں، میں ایک جان دار مجسمہ تھی جو حرکت کرتا ہے، مسکراتا ہے، لیکن کوئی شعور نہیں رکھتا۔ اور تنہا میں ہی ایسی نہیں تھی، جس سے ان سب کا مطالبہ کیا جارہا تھا بلکہ جب بھی کوئی ماڈل اپنی بشریت و انسانیت سے نکل کر ’’چمکتی‘‘ ہے تو اس ’’عالم سرد‘‘ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے، مگر جب وہ فیشن ہاؤس کی کسی بھی ’’ہدایت‘‘ کاانکار کردیتی ہے تو اسے مختلف قسم کی سزاؤں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جن میں جسمانی و نفسیاتی ہر قسم کی سزائیں شامل ہوتی ہیں۔
اور میں بحیثیت ماڈل پوری دنیا کی سیر کرتی رہی، تاکہ میں وہاں میک اپ ، دھوکہ دہی اور بغیر کسی شرم و حیاء کے نسوانی نشیب و فراز کو ظاہر کرکے شیطان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے جدید ترین طریقے اور ’’گائڈ الائنس‘‘ سے آگاہی حاصل کروں۔
فابیان اپنی بات جاری رکھتی ہیں: ’’میں اپنے کھوکھلے جسم پر فیشنوں کی خوبصورتی کو ذلت و حقارت کو محسوس کرتی اور ریمپ پر میں لوگوں کی نگاہوں میں حقارت و تذلیل کے جذبات محسوس کرتی جبکہ میرے ’’ملبوس‘‘ کے لیے ان کا جذبہ احترام کا ہوتا۔‘‘
اپنی غفلت بھری اور لغو زندگی سے اچانک ایک دوسرے راستے پر پلٹنے کے بعد وہ کہتی ہیں: ’’اس دوران میں نے تباہ شدہ بیروت کا سفر کیا، جہاں میں نے دیکھا کہ لوگ کس طرح توپوں کی جارحیت کے نیچے ہوٹل اور مکانات بناتے ہیں اور بیروت میں میں نے اپنی آنکھوں سے بچوں کے اسپتالوں کی انتہائی خراب و خستہ صورتِ حال کا مشاہدہ کیا۔ میں وہاں تنہا نہیں تھی بلکہ میرے ساتھ ’’انسانی بتوں‘‘ میں سے میری کچھ سہیلیاں بھی تھیں اور انھوں نے اپنی عادت کے مطابق بغیر کسی پرواہ کے صرف دیکھنے پر اکتفا کیا۔
میں اس وقت ان کا ساتھ نہ دے سکی۔ چنانچہ اس وقت میری نگاہوں سے اس کھوٹی شہرت وعزت اور بے وقعت زندگی کا پردہ ہٹ گیا اور ان مریض بچوں کے لیے میرے اندر ایک جذبہ ابھرا کہ ان میں سے جو ابھی بقید حیات ہیں، انھیں بچانے کی کوشش کروں۔ اور اس وقت میں ہوٹل میں موجود اپنی سہیلیوں کے پاس واپس نہیںگئی، بلکہ میں نے اپنی سمت سفر انسانیت کی جانب موڑ دی، یہاں تک کہ میں روشنی کے راستے تک پہنچ گئی اور وہ اسلام تھا۔
میں نے بیروت کو خیر باد کہا اور پاکستان چلی گئی۔ اس وقت میں نے افغانستانی سرحدوں پر حقیقی زندگی کی لذت محسوس کی اور پہلی مرتبہ میں نے سیکھا کہ میں کیسے انسان بن سکتی ہوں۔ وہاں میں نے آٹھ مہینے گزارے، جہاں میں ان خاندانوں کی مدد کررہی تھی جو جنگ کی مار جھیل رہے تھے۔ ان کے ساتھ رہائش کو میں نے بہت پسند کیا۔ اور انھوں نے بھی میرے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا۔
اسلام کے مطابق رہنے اور افغانی و پاکستانی خاندانوں کے ساتھ، ان کے روزانہ کے طور طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کے دوران اسلام سے میرا تعلق بحیثیت ایک دین اور دستور حیات گہرا ہوتا گیا۔ پھر میں نے عربی زبان سیکھنا شروع کی، کیوںکہ یہ قرآن کی زبان ہے، اور نہایت تیزی سے میں نے اس میں مہارت حاصل کرلی۔
اپنی ہدایت یافتگی کے بعد فابیان عالمی فیشن سینٹرز سے اپنے تعلق کی نوعیت اس طرح بیان کرتی ہیں کہ انھیں دنیا اور سماج کے سخت دباؤ سے دوچار ہونا پڑا۔ فیشن سینٹرز نے انھیں ماہانہ تین گنا آفر کی پیش کش کی، جس کو انھوں نے سختی سے رد کردیا۔ پھر انھوں نے ان کے پاس قیمتی تحفے وغیرہ بھیجے، تاکہ وہ اپنے موقف سے پلٹ جائیں اور اسلام سے مرتد ہوجائیں۔
اور وہ اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہتی ہیں: پھر وہ مجھے واپسی پر اکسانے سے باز رہے اور ایک دوسرا حربہ آزمایا۔ انھوں نے افغانی خاندانوں کے سامنے میری تصویر مسخ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ انھوں نے ان میگزین کے ٹائٹل شائع کیے جن میں بحیثیت فیشن ماڈل میری تصویریں سرفہرست تھیں، پھر انھیں راستوں وغیرہ پر لٹکا دیا۔ گویا کہ میری توبہ کا وہ اس طرح انتقام لے رہے تھے۔ اور اس سے انھوں نے میرے اور میرے نئے خاندان کے درمیان جدائی ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ اپنے حربوں میں ناکام رہے۔
فابیان اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں: میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنے دلکش ہاتھوں کو جن کی نزاکت کی حفاظت میں میں کافی وقت صرف کرتی ہوں، کسی دن پہاڑوں کے درمیان ایسے مشکل کاموں میں ڈالوں گی، لیکن اس مشقت نے میرے ہاتھوں کی روشنی اور پاکیزگی میں اضافہ کردیا ہے اور انشاء اللہ ! اللہ سبحانہ و تعالی کے یہاں اس کا بہترین اجر ملے گا۔
——