چند ماہ قبل ہمارے ایک جاننے والے نے اپنی بیٹی کے لیے رشتہ کی تلاش میں مدد کرنے کو کہا۔ چند دن پہلے ہمارے ذہن میں ایک رشتہ آیا اور ہم نے اپنے دوست کو فون پر اس رشتے کے بارے میں بتایا۔ بیٹی نے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے باپ کو سنا تو اندازہ کرلیا کہ یہ گفتگو اس کی شادی کے لیے ہورہی ہے۔ یہ جان کر بیٹی غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی اور ماں کو کہا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکی اور اب کوئی نوکری کرنا چاہتی ہے، اس لیے رشتے یا شادی کی بات بھی اُس کے سامنے نہ کی جائے۔
اگلے دن ہمارے دوست نے ساری روداد غم ہمیں سنائی اور ہم حیران اور کچھ پریشان ہوگئے۔خیال آیا کہ یہ کیسا ماحول ہے اور ہم اپنے بیٹے بیٹیوں کو کیسی تربیت و تعلیم فراہم کررہے ہیں۔ یہ بات بار بار ذہن میں اٹھتی ہے کہ یہ سوچ بچی کے ذہن میں کیسے آئی؟
اب تو ایسے بھی والدین ہیں جو بیٹی کی شادی یا رشتہ کے لیے پہلے یہ شرط لاگو کرتے ہیں کہ اُن کی بیٹی پروفیشنل ہے یا ورکنگ لیڈی ہے شادی کے بعد چاہے شوہر جتنا مرضی پیسہ کماتا ہو بیٹی نوکری نہیں چھوڑے گی۔ ایسے حالات میں جب بچیوں کی عمر بڑھ جاتی ہے تو پھر رشتے ملنا ممکن نہیں رہتا اور وقت گزرنے کے بعد پچھتانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
بیٹیوں کو بہتر تعلیم دیں،خاندان، سماج یا معاشی ضرورت کے لیے نوکری بھی کریں، بلکہ بعض شعبوں کے لیے تو خواتین کا کام کرنا لازم بھی ہے لیکن خدارا بیٹیوں کو آج کے اُس فتنہ سے دور رکھیں جو اُنہیں مرد سے برابری، پروفیشلزم اور ورکنگ وومن بننے کے جنون میں ایسا مبتلا کرتا ہے کہ وہ شادی ہی سے انکاری ہوجاتی ہیں یا شادی کو اپنی زندگی اور کیریئر کے لیے رکاوٹ سمجھتی ہیں لیکن نامحرم مردوں سے دوستی اور تعلق رکھنے کو عیب نہیں سمجھا جاتا۔
خاموشی سے، آہستہ آہستہ میڈیا کے ذریعے یا تعلیمی نظام سے جو ذہن سازی کی جارہی ہے وہ ہمارے خاندانی نظام اور دینی و معاشرتی روایات کے لیے توتباہ کن ہے ہی ساتھ ہی معاشرتی زندگی، سماجی صحت کی بقا اور زندگی کے اہم ترین رشتوں پر بھی شدید حملہ ہے۔
جو خواتین ضرورت کے تحت کام کرتی ہیں اُن سے پوچھیں کہ نوکری کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کتنا بڑا چیلنج ہے اور وہ کس طرح چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستی ہیں۔ اسی لیے بہت سی سمجھ دار خواتین، اگر اُن کے معاشی حالات اجازت دیں، تو بچوں اور فیملی کے لیے نوکری چھوڑ دیتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ تعلیمی نظام یہ سوال اٹھاتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے عورت ہی اپنے کیریئر کی قربانی کیوں دے؟ اب یہ بات سمجھانا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ کہ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں، ممتا ایسا رشتہ اور ایسا جذبہ ہے جو ہر بچہ کا حق ہے اور وہ صرف ماں ہی دے سکتی ہے۔ الٰہی اور فطری نظام یہ ہے کہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمائے اور گھر چلائے، بیوی بچوں کی ضرورت کو پورا کرے لیکن اگر برابری کا یہ تصور رکھنے والوں کی بات کو تسلیم کیا گیا اور خواتین میں ملازمت کے جنون کو پروان چڑھایا جاتا رہا تو بچوں کو یا تو گھر کے ملازموں کے سپرد کیا جائے گا یا شوہر قربانی دے گا اور بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کرے گا۔ ملازموں یا Maids کے حوالے بچوں کو کرنا اس کی تو بات ہی اور ہے اور اس سے جڑے مسائل ہیں ہی بہت سنگین لیکن کوئی کتنا ہی اچھا باپ کیوں نہ ہو وہ بچوں کی ماں جیسی تربیت اور دیکھ بھال کرہی نہیں سکتا؟
اپنی بیٹیوں کو مغرب کی اندھی تقلید میں برابری اور پروفیشنلزم کے جنون میں اتنا مبتلا نہ کریں کہ شادی کو چڑ سمجھا جائے اور گھر چلانے کو کم تر اور بے کار کام تصور کیا جانے لگے۔ اس بات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے مغرب میں پروفیشنل خواتین کے مسائل بھی جاننے کی کوشش کر لیں، یہ بھی دیکھ لیں کہ جن کے بچے ہیں اُن کی دیکھ بھال میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس جنون نے دراصل سب سے بڑا ظلم ہی عورت پر کیا، جس وجہ سے اس کی زندگی بہت مشکل ہو گئی۔اسے نوکری کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں اور گھر اور بچوں کو بھی دیکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس استحصال کا بھی سامنا کرنا ہے جو گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت کو بدقسمتی سے کرنا پڑتا ہے۔ ہماری دینی و معاشرتی روایات اور خاندانی نظام مغرب کے برعکس ہماری بہت بڑی قوت (Strength) ہے۔ اپنی ان روایات کا تحفظ کریں اور مغرب کی اُس اندھی تقلید، برابری اور پروفیشلنزم کے جنون میں اپنی بیٹیوں کو مبتلا نہ ہونے دیں جس کا سب سے بڑا نقصان اُنہی کو ہو گا اورپھر سماج اور انسانیت کو۔