یونین منسٹر برائے امور خواتین و اطفال محترمہ اسمرتی ایرانی نے انڈین ایکسپریس کی ٹیم کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا : ’’خواتین بلا تفریق مذہب سوشل میڈیا پر احترام سے محروم کی جارہی ہیں۔‘‘ انھوں نے اس موضوع پر سیاست کو درکنار کرکے لوگوں سے متحد ہونے کی اپیل بھی کی۔ یہ ۱۱؍جنوری کی خبر ہے۔
محترمہ ایرانی کی ان باتوں کو اگر’’سلی ڈیل‘‘ اور ’’بلّی بائی ایپ‘‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یقینا درست اور مضبوط احساس معلوم ہوگا جس پر پورا سوشل میڈیا گواہ نظر آئے گا۔بہ حیثیت ایک سیاست داں اور امورِ خواتین و اطفال کی وزیر ہونے کے ناطے ان کا یہ احساس حقیقت پر مبنی اور ذمہ دارانہ ہے۔ ساتھ ہی اس پر اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ محترمہ کئی سالوں سے اپنے اس اہم عہدے پر فائزہیں اور کئی سالوں سے اس کا مشاہدہ کررہی ہیں۔ خواتین کو سوشل میڈیا پر بے عزت و رسوا کیا جانا کوئی نئی اور آج کل کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے اور دن بہ دن اور زیادہ منظم طریقے سے عام ہورہا ہے۔ جو لوگ ٹوئیٹر، انسٹا گرام اور فیس بک دیکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خواتین کے ٹوئیٹس پر وہ لوگ جو ان ٹوئیٹس کو پسند نہیں کرتے یا وہ ان کی سوچ اور ان کے سیاسی نظریاتی پر چوٹ کرتے ہیں یا مخالفت کرتے ہیں، ان کو کس قدر بھدّی ، غیر اخلاقی اور گندی زبان میں جوابات دیے جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ان کا اندازِ بیان اور ان کی زبان اس قدر غیر ذمہ دارانہ اور گندی ہوتی ہے کہ اس کے بعد کہنے کو کچھ نہیں بچتا۔ یہ سوشل میڈیا کی اخلاقی صورتِ حال ہے جس کے پیچھے بنیادی طور پر نفرت اور مخالف نظریہ کے حامل افراد کی انتہائی حد تک تذلیل کی ’’مانسکتا‘‘ کام کرتی ہے اور کررہی ہے۔ یہ کوئی اچانک پیدا ہونے والی چیز بھی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم جدوجہد ہے جو آئے دن مضبوط ومستحکم ہورہی ہے اور کچھ طاقتیں اسے استحکام ہی بخشنا چاہتی ہیں۔
بات اگرمسلم خواتین کی ہو تو یہ صورتِ حال عام خواتین کے مقابلے کافی سنگین اور تکلیف دہ نظر آتی ہے۔ اس تکلیف کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ منظم معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف اس کے خلاف قانون و انتظام کسی بھی قسم کی ٹھوس کارروائی کرنے میں غیر سنجیدہ نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قانون انتظام اس کے خلاف کارروائی کی اہلیت یا صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ کچھ وجوہ سے اسے نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے سائبر جرائم میں تو مجرم کا پتہ لگانا آسان ہے اور سائبر جرم کا ارتکاب کرکے کوئی فرد اگر ’پاتال‘ میں بھی چلا جائے تو ٹکنالوجی کی گرفت سے نہیں بچ سکتا بہ شرطیکہ قانون و انتظام اسے پکڑنے کا خواہش مند ہو۔ یہی چیز ہے جو سائبر جرائم اور سوشل میڈیا کے مجرمین کے حوصلے بڑھاتی ہے۔
یہ بات ’’سلّی ڈیل‘‘ کے مجرموں کے سلسلے میں صاف ظاہر کرتی ہے جب کہ محض چند ماہ قبل کچھ ’نفرت پسندوں‘ نے کچھ سرکردہ اور مختلف شعبہ ہائے حیات کی معروف لڑکیوں اور عام لڑکیوں اور خواتین کی، جو مسلم تھیں، تصویریں انٹرنیٹ پر ڈال کر ان کی نیلامی کرائی۔ اس پر ایف آر آئی ہوئی مگر وہ صرف ایف آر آئی ہی رہی اور کوئی ٹھوس کارروائی کسی کے خلاف نہیں ہوئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ محض چھ ماہ بعد اسی طرح کی ایک اور منظم کوشش ’’بلی بائی ایپ‘‘ کی صورت میں سامنے آئی جس پر پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اب انتظامیہ نے اس سلسلے میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
اس معاملے کو ابھی محض چند روز ہی گزرے ہیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ قانون ان مجرمین کے خلاف کیا کارروائی کرتا ہے اور کوئی ٹھوس قدم اٹھاتا بھی ہے یا نہیں کہ آئندہ کے لیے اس راستے کو بند کیا جاسکے۔ اس پورے سلسلۂ واقعات میں جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے، اور جو ملک کے مستقبل کے لیے خطرہ کا سنگل ہے، وہ یہ ہے اس میں شامل تمام افراد اپنی عمر کے لحاظ سے نوجوان ہیں۔ قوم کے نونہالوں میں سرایت کرتا نفرت کا یہ منفی رویہ نہ تو ملک کے حق میں مفید ہوسکے گا اور نہ ان لوگوں کے حق میں سود مند ثابت ہوسکے گا جو اسے پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ نفرت کی شروعات اگرچہ مخالفین اور دشمنوں کے خلاف ہوتی ہے، مگر دھیرے دھیرے اس کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک مقام وہ بھی آتا ہے کہ نفرت ہی افراد اور معاشروں کی پہچان بن کر ان کے خمیر میں شامل ہوجاتی ہے اور برداشت اور تحمل کی صفت کو ایسا ملیا میٹ کرتی ہے کہ کسی کے لیے بھی محبت باقی نہیں رہتی۔ پھر انسان بلا تفریق مذہب، صرف نفرت ہی کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس بات کو اگر ہم چھوٹی سطح پر دیکھنا چاہیں تو ان گھروں اور خاندانوں میں دیکھ سکتے ہیں جہاں والدین اپنے بچوں کو اپنے مخالفین سے بہ طور خاص نفرت کرنا سکھاتے ہیں پھر اس نفرت کا دائرہ غیر محسوس طریقے سے ایسا پھیلتا جاتا ہے کہ بھائی بھائی سے نفرت کرتا نظر آتا ہے یہاں تک کہ بڑھاپے کو پہنچے والدین بھی اس نفرت کا شکار ہوکر اپنی ہی اولاد کی نظر میں ناقابلِ قبول وجود بن کر رہ جاتے ہیں۔ نفرت چاہے گھر اور خاندان میں پروان چڑھائی جائے یا سماج و معاشرے اور ملکی سیاست میں آخر کار وہ اپنی پرورش کرنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں ضرور لے لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گھر ہو یا خاندان،سماج ہو یا ملک اگر باہمی محبت و احترام کی بنیاد پر ہی قائم رہیں تو صحت مند رہتے ہیں ورنہ بیمار ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔
شمشاد حسین فلاحی
مزید پڑھیں!
بہادری اور عزم و حوصلہ کی جانب!