خالق نے انسانیت کو دو صنفوں میں تقسیم کیا ہے مرد اور عورت۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ دنیا کی تمام چیزیں جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہیں اور ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی اپنے فطری فرائض کی انجام دہی کر پاتی ہے۔ اس اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا تاکہ تم دھیان کرو۔ ‘‘ (الذاریات:۴۹)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں کو الگ الگ مقاصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ دونوں کے اندر کیمیائی مادّے بھی الگ ہوتے ہیں۔ جسمانی ساخت اور ہارمون کی یہ تفریق زندگی میں نہ صرف ان کے کردار کو الگ کردیتی ہے بلکہ بہت سے کاموں میں دونوں کی ترجیحات مختلف ہوجاتی ہیں۔ اس حقیقت کا اظہار خود دور حاضر کا مصنف الگزس کیرل نے اپنی کتاب Man the Unknown میں کیا ہے:
’’مردوں اور عورتوں کے درمیان جو اختلاف پائے جاتے ہیں وہ بنیادی نوعیت کے ہیں۔ یہ اختلافات ان کے جسم کی رگوں اور ریشوں کی ساخت کے مختلف ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ عورت کے بیضہ دان سے جو کیمیاوی مادے خارج ہوتے ہیں ان کا اثر صنف نازک کے ہر حصے پر پڑتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے طبعی اور نفسیاتی اختلافات کا سبب بھی یہی ہے۔‘‘
لیکن بہ حیثیت انسان دونوں ایک ہیں، انسان ہونے کے تمام فطری حقوق انہیں حاصل ہیں۔ اپنے اعمال کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ دونوں کی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں جس کے بارے میں وہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ یہ بتاتاہے کہ تمام انسان ایک ہی والدین سے ہیں۔ اس لئے کوئی نہ تو برتر ہے نہ کمتر۔ مرد و عورت دو جنس ہیں جو ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ نظام حیات میں دونوں کا وجود یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر فضیلت اور برتری کسی کو حاصل ہے تو اس کی بنیاد صرف عمل ہے یعنی تقویٰ اور پرہیز گاری۔ (دیکھئے الحجرات: 13)
چنانچہ اللہ تعالی نے دنیاوی امور ، اسلامی قوانین کی پابندی، امربالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم، سماجی، معاشرتی، انفرادی، تعلیمی اور اخلاقی ذمہ داریوںمیں برابر رکھا ہے۔ دونوں کو قران مخاطب کرکے ان ذمہ داریوں کی تکمیل کا حکم دیتا ہے اور ان سے کو تاہی کے نتیجے میں دونوں یکساں طور پر جوابدہ ہوں گے۔ قرآن کہتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘(التوبہ :71)
’’اے نبیؐ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظر یں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ا ن کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبررہتا ہے۔‘‘
اور اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریںبچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘(النور:۳۰، ۳۱)
یہ آیات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مرد اور عورت کے لئے قوانین یکساں ہیں۔ تمام اخلاقی ذمہ داریاں دونوں پر عائد ہوتی ہیں۔
اسلام کے تصور انسان کی ایک مختصر سی جھلک کے بعد یہ سوال خود بخود ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ پھر عورت کو وہ وقار اور احترام کیوں حاصل نہیں ہے جو خود اس کا خالق اسے عطا کرتا ہے؟ کیا اس کا ذمہ دار سماج ہے یا خود عورت؟ عورت کیسے اپنے اس بنیادی حق کو حاصل کرے؟
1- اپنے وجود سے واقفیت ہو: ہمارے سماج میں بچپن سے ہی بچیوں کی اس طرح پرورش ہوتی ہے کہ گویا ان کا وجود خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اسے اپنے بھائی کے مقابلے کم تر ہونے کا احساس قدم قدم پر دلایا جاتا۔ مثال کے طور پر بیٹا حکم چلائے تو کوئی بات نہیں بیٹی پانی مانگ لے توتنبیہ۔ بیٹا دیر سے اٹھے تو کوئی مسئلہ نہیں بیٹی اٹھے تو سسرال میں کیسے رہو گی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ چھو ٹی سی مثالیں ہیں ہم اپنے گھروں میں خود اس تفریق کو محسوس کر سکتے ہیں۔یہ تفریق رسول کی تعلیمات اور اسلام کے نظامِ اخلاقیات سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔ ہمارے حضورؐ نے تو اس شخص کو جنت کی بشارت دی ہے جو لڑکے اور لڑکی کے درمیان تفریق کیے بنا لڑکی کی تعلیم و تربیت کرے اور اسے اپنے گھر کا کردے۔
ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ بچیوں کی پیدائش پر ہم خوشی کا اظہار کریں، انہیں قدم قدم پے احساس دلائیں کہ وہ کتنی عظیم نعمت ہیںاور وہ کیا کچھ انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ انہیں تاریخ کی مایہ ناز عورتوں کے واقعات سنائیں ، حضرت موسی کی والدہ، حضرت آسیہ، مریم علیہ السلام ، حضرت خدیجہ ؓ وغیرہ کے واقعات جنہوں کے ہمت و جرأت کی مثالیں قائم کی ہیں۔ایسا کرنے سے وہ پر اعتماد شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گی اور سماج کے لئے بہتری کا سبب بنیں گی اور عزت و وقار حاصل کریں گی۔
2- دائرہ عمل واضح ہو: اسلام نے مردو عورت کے دائرہ عمل میں تفریق کی ہے۔ نبی کریمؐ کا واضح ارشاد ہے: ’’عورت اپنے خاوند اور بچوںکی نگہباں ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھ ہوگی۔‘‘
اپنی روز انہ زندگی میں انسان دو طرح کے کاموں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ایک تو گھر کے اندر کی ذمہ داریاں، جس میں گھر کی دیکھ ریکھ، اولاد کی پرورش و تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے گھر سے باہر کی ذمہ داریاں جس کے لئے زیادہ قوت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں ہی امور اپنی جگہ ایک جیسی ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے مطابق سخت کوش زندگی کو مردوں کے حصے میں دیا ہے اور گھر سے باہر کی ذمہ داری مرد کے سپرد کی ہے۔ یہ اصولی بات ہے جس کی دلیل سماج و معاشرہ بھی پیش کرتا ہے اور انسانی فطرت بھی، لیکن اس کے باوجود مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے دائرہ عمل میں آنے اور کام کرنے کی پوری اجازت موجود ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے حدود کو پامال نہ کیا جائے اور عورت کو مشقت میں نہ ڈالا جائے۔
موجودہ دور میں سماج کا کچھ ایسا مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ گھر کی دیکھ ریکھ، بچوں کی تربیت اور گھریلو امور کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ایسی خواتین جو اپنا وقت گھر میں صرف کرتی ہیں’نان ورکنگ‘ یا بے کار تصور کیا جاتا ہے جبکہ باہر جاب کرنے والی خواتین کو ورکنگ یا Productive مانا جاتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے پڑوس میں ایک عورت ہیں جو فی الوقت کسی یوروپین ملک میں رہتی ہیں، پہلے وہ دبئی میں اچھی پوسٹ پرتھیں۔ جب وہ وہاں شفٹ ہوئیں تو ان کی ایک چھوٹی بیٹی تھی۔ وہ بتانے لگیں کہ وہاں کے قانون کے مطابق جن عورتوں کے چھوٹے بچے ہوں وہ فل ٹائم جاب نہیں کر سکتی ہیں۔ یہ چیز ہمیں اپنے سماج کو سکھانے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت ایک فل ٹائم جاب ہے اگر ایک عورت اس میں اپنی قوت صرف کررہی ہے تو وہ بھی ویسے ہی عزت کی مستحق ہے جیسے کہ جاب کرنے والی عورت۔ یہ تبدیلی ہمیں اپنے گھر سے شروع کرنی ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے دور میں گھریلو کاموں میں بہت آسانیاں ہو گئی ہیں، عورتیں اگر تھوڑا بھی موڈ بنا لیں تو گھریلو کاموں اور بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ دوسرے بہت سے productive کام کر سکتی ہیں۔ بچوں کو بھی چھوٹی عمر سے اسکول ڈال دیا جاتا ہے تو ان اوقات کو بہتر کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ عورت اپنی صلاحیتوں کو بھی نکھار سکتی ہے اور سماج کی ترقی میں اپنا کردار اور بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔
سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ کچھ عورتیں گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ الجھی ہوتی ہیں، کثیر الاولاد ہوتی ہیں یا مشترکہ خاندان میں رہتی ہیں ۔ کچھ خواتین زیادہ تر فارغ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے موبائل یا دوسری لغویات میں وقت صرف ہوتا ہے تو اپنے وقت اور حالات کے لحاظ سے عورت خود بہتر طور پر فیصلہ لے سکتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے ۔ لیکن گھر اور اولاد کی تربیت ایک بڑی ذمہ داری ہے جس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔
کچھ ایسے میدان ہیں جہاں خواتین کا ہونا ناگزیر ہے جیسے میڈیکل میں، اسکول میں، ہاسٹل میں، ہاسپٹل کے دوسرے اسٹاف کی صورت میں تو ایسی جگہوں پر لانے کے لئے بچیوں کو تیا ر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مسلم قوم کی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ لیکن کسی بھی حالت میں عزت و شرف کا میعار اس چیز کو نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اس سے گھریلو کام کرنا یا بچوں کی پیدائش و تربیت میں وقت صرف کرنا کم درجہ کا کام بن جائے گا جو قابل قبول نہیں ہے۔
کسی بھی خاندان کے بچے، جن کے اخلاق و کردار بلند ہوں اور جن کی تربیت وتعلیم عمدہ ہو انہیں دیکھ کر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ ان کی بلند کرداری اور اعلیٰ اخلاق اور تعلیم و تربیت کے پیچھے یقینا ایک کامیاب ماں موجود ہے۔ یہ بات اپنے آپ میں ایک ماں کے وقار کو بلند کرتی اور اسے قابلِ ستائش بناتی ہے۔ اس لیے اولاد کی تربیت و تعلیم اور کردار سازی پر محنت کرنے والی عورت کو کبھی اپنے اس مشن کو کم تر اور معمولی تصور نہیں کرنا چاہیے۔
3- مطالعہ کی عادت: کتا بیںانسان کی بہترین ساتھی ہیں۔ مطالعہ کی عادت نہ صرف ہمیں بہت سی فضول مشغولیات اور شکوہ شکایت سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ عقل و شعور میں پختگی پیدا کرتی ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے، صحیح و غلط کی تمیز سکھاتی ہے اور اپنا مافی الضمیر بہتر انداز میں ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ آج سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے زمانے میں مطالعہ کی عادت کچھ ختم سی ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ عادت سماج سے جوڑنے میں نہایت مفید ہے۔ مثال کے طور پر اخبارات کے مطالعے سے ایک عورت اپنے آس پاس کی دنیا سے واقف ہوتی ہے۔ اس کے، آنے والی نسل کے کیا مسائل ہیں ، ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے، کیا نئی ٹکنالوجی آ رہی ہے، کون سے نئے کورس آ رہے ہیں، کن فیلڈ میں اس کی اور بچوں کی ترقی زیادہ تیزی سے ہو سکتی ہے وغیرہ جیسے بہت سے اہم ایشوز سے واقف ہو کر وہ اپنا، اپنی اولاد کا اور اپنے سماج کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔ایسی عورت جو حالات حاضرہ سے باخبر ہوتی ہے اسے گھر ، خاندان اور سماج عزت و احترام عطا کرتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہے۔
اسی طرح جب وہ عورت اسلام کا مطالعہ کرتی ہے تو وہ اپنے وجود کی اہمیت سے واقف ہوتی ہے، اپنے حقوق و ذمہ داریوں کو سمجھتی ہے، اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ بنتی ہے، اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طور پر انجام دیتی ہے اور کچھ غلط ہونے پرآواز اٹھاتی ہے اور اپنے حقوق کی مانگ کرتی ہے۔ خود کو سماج اور ملک کا ایک ذمہ دار فرد سمجھتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے اور اپنے عزت و وقار کے لے جان کی بازی لگا دیتی ہے، لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب عورت اسلامی تعلیمات سے پوری طرح لیس ہواور یہ ممکن ہے صر ف زیادہ سے زیادہ مطالعہ سے۔
دین کا گہرا علم و شعور اور حالات کے تقاضوں سے واقفیت ایک عورت کے وقار کو سماج و معاشرے کی نظر میں بلندی بھی عطا کرتا ہے اور زندگی گزارنے کے ایسے گر بتاتا ہے جو اسے دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔
4- علم کا حصول: جب اسلام کہتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے تو اس سے مراد صرف دینی علوم نہیں بلکہ وہ تمام علوم ہیں جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج مسلم قوم تعلیم اور بالخصوس سائنس اور ٹکنا لوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہے اور اس قوم کی عورتیں اس معاملے میں اور پسماندہ ہیں۔ موجودہ دور سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے ، دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب وہی قوم یا ملک حکمرانی کر سکتا ہے جو علم اور ٹکنا لوجی میں آگے ہے۔ اگر کسی ملک یا معاشرے کی نصف آبادی پسماندہ یا غیر تعلیم یافتہ ہو گی تو وہ کیسے ترقی کر سکتا ہے ۔ لہٰذا عورتوں کے لئے تعلیم کا حصول اورعلم کے زیور سے آراستہ ہونا ناگزیر ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی ایک عورت اپنے مقام سے آگاہ ہو کر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے، وہ نئے ماحول اور حالات سے زیادہ بہتر طور پر مطابقت پیدا کر سکتی ہے اور اپنا ما فی الضمیر زیادہ آسانی سے دوسروں تک پہنچا سکتی ہے۔ علم و ٹکنالوجی سے لیس ہو کر ایک عورت اپنے ملک اور قوم کی قسمت بدل سکتی ہے او راپنی کھوئی ہوئی عزت و وقار اور قدر و منزلت حاصل کر سکتی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ دنیا ہمیں تبھی تک سر کا تاج بنائے رہتی ہے اور عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے جب تک ہم دنیا کو قابل قدر چیز دیتے رہتے ہیں جیسے ہی ہم دینا چھوڑ دیتے ہیں اور صرف لینے والے بن جاتے ہیں دنیا ہمیں پیر کی جوتی بنا لیتی ہے۔
5- سماج کے لئے نمونہ بنیں: مسلم خواتین اپنے انداز، کردار، رہن سہن، بول چال، اخلاقیات، میل جول، آپسی روابط، بچوں کی پرورش و پر داخت ، پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر طور سے نبھانے میں سماج کے لئے نمونہ بنیں۔ مسلم خواتین یا پردے میںڈھکی چھپی خواتین کے متعلق عمومی نظریہ ہے کہ وہ آس پاس اور سماج سے ناواقف، اَن پڑھ اور پسماندہ ہوتی ہیں تو اس نظریے کو اپنے قول و عمل کے ذریعے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انفرادی و اجتماعی طور پر کوشش کرنے سے مسلم خواتین کے متعلق جو غلط فہمی ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے اور یہی چیز سرکاری و غیر سرکاری سروے اور رپوٹوں سے بھی سامنے آتی ہیں، سماج، معاشرے، تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی یہی حقیقت دکھائی دیتی ہے جس سےمسلم عورت کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس کو پہنچے نقصان کی بھرپائی کا راستہ یہ ہے کہ مسلم عورت جمود و تعطل سے نکل کر سماج میں ایک فعال اور باشعور عورت کا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ علم و شعور کی شان رکھتی ہو اور حرکت و عمل کے جذبے سے بھرپور ہوکر اصلاحِ حال اور اصلاحِ ماحول کے لیے جدوجہد میں قابل دید اور قابلِ فہم رول ادا کرے۔
مزید پڑھیں!