انڈونیشی جزیرے جاوا میں ایک موبائل لائبریری منفرد پروگرام چلا رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت بچے پلاسٹک کا کوڑا لاتے ہیں، جس کے بدلے میں لائبریری سے کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد ماحول دوستی کی ترغیب اور آگہی کو فروغ دینا ہے۔
پورے ہفتے خاتون رادین رورو ہینڈراٹی اپنی تین پہیوں والی گاڑی پر کتابیں لادکر ایک گاؤں منٹانگ جاتی ہیں۔ وہ گاؤں کے بچوں سے پلاسٹک کا کچرا وصول کرتی ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں کتابیں دیتی ہیں۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی پیش رفت ہے لیکن اس کا اثر بہت وسیع ہے، کیونکہ بچوں کو ماحول کے بارے میں معلومات میسر ہورہی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ انڈونیشیا میں ہی نہیں، پوری دنیا میں پلاسٹک کا کوڑا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بہت سارے بچے ان کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ وہ قطار میں کھڑے ہوکر کتابیں وصول کرتے ہیں۔ بچے ان کے پاس پلاسٹک کے کپ، تھیلے اور دوسرا کچرا جمع کرواتے ہیں۔ رادین اس کوڑے کو اپنے ٹرائی وہیلر پر رکھتی جاتی ہیں۔ وہ یہ کوڑا لاکر اپنے ساتھیوں کو دیتی ہیں، جو اسے علیحدہ کرکے ری سائیکل یا فروخت کردیتے ہیں۔ رادین ایک ہفتے میں قریب ایک سو کلوگرام کچرا جمع کرلیتی ہیں۔ ان کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور زمین کو بچانے کے لیے ایسا کوڑا جمع کرنا ضروری ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ٹریش لائبریری کے تحت جمع ہونے والے کاٹھ کباڑ کا وزن بھی کرتی ہیں۔ رادین کے مطابق بچے ان کی چھوٹی سی موبائل لائبریری سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں پر واضح کیا کہ جب کوڑا زیادہ ہوگا تو گندگی پھیلے گی اور ماحول صحت مند نہیں رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول سے واپس لوٹ کر بھی یہ بچے اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسرے کی کتابوں کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ رادین بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کرکے بہت خوش ہیں۔ وہ اِن بچوں کے کتب بینی کے شوق کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ اب گاؤں کے بچے ویڈیو گیمز کھیلنے پر کم وقت صرف کرتے ہیں۔ رادین کی کوشش ہے کہ پڑھنے کے کلچر کو فروغ دیا جائے کیونکہ آن لائن رویوں نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کووڈ19 کی وبا کے دوران بچے ویڈیو گیمز کی جانب زیادہ مائل ہوگئے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران انڈونیشیا میں بیشتر اسکول بند رہے جس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رادین اپنے ملک میں پڑھنے کو پھر سے رواج دینے کی کوشش میں ہیں۔ وہ روزانہ ہزاروں کتابیں اپنی تین پہیوں والی گاڑی پر لاد کر تقسیم کرتی ہیں۔
کتاب کی اہمیت اور مطالعہ کا شوق