کرناٹک حجاب تنازعہ

شمشاد حسین فلاحی

ہمارے وطن ہندوستان میں کوڑھ مغز نفرت کی سیاست کا سکہ اس وقت اُٹھان پر ہے۔ ہندو مسلم کی ہی نہیں بلکہ گروہ بندی اور ذات پات کی سیاست نے تقریباً پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوششیں زور و شور کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہیں۔ عام دنوں میں تو اس کا احساس کچھ کم ہوتا ہے لیکن کسی بھی طرح کے انتخابات کے وقت اس کی آواز پُرزور انداز میں سنائی دیتی ہے۔ اس وقت جبکہ ملک کی کئی ریاستیں اسمبلی انتخابات سے گزر رہی ہیں، نفرت کی سیاست اور مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرنے والے نعرے اور تقریریں کانوں اور دلوں کو پھاڑے ڈال رہے ہیں۔ اس کے اسباب کو قارئین بھی اچھی طرح سمجھتے ہوں گے اور ملک کا ووٹر طبقہ بھی کسی نہ کسی حد تک ان کے پس پردہ اسباب و وجوہات سے باخبر ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ دنوں میں ریاست کرناٹک سے حجاب کے نام پر اٹھنے والا تنازعہ، جسے ہندو مسلم کے رنگ میں پیش کیا جارہا ہے، اترپردیش کے انتخابی دنگل میں بھی اس کی آواز گونج رہی ہے۔ کہاں ملک کی جنوبی ریاست کرناٹک اور کہاں شمال کی ریاست اترپردیش مگر گونج ہے کہ کان پھاڑے دیتی ہے۔ لیڈران ہیں کہ اس کے ’ذکرِ خیر‘ کے بغیر کسی ریلی کو ختم نہیںکرتے اور یہ تنازعہ یوپی میں ووٹ سمیٹنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اس پورے ایپی سوڈ میں جو چیز واضح طور پر سامنے آتی ہے، وہ مذہبی جذبات کا استحصال ہے۔ جہاں ملکی ترقی اور عوامی خدمات کی بنیاد پر سیاست دانوں کو پرکھنے اور ووٹ دینے کا خیال سرے سے گم ہوکر رہ گیا ہے۔ دراصل یہی اس کا سبب ہے اور یہی اس کا حاصل بھی۔

کرناٹک کے ساحلی شہر اڈپی کے ایک انٹر کالج نے حجاب پہننے والی طالبات کو کیمپس میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ کالج کے ڈریس کوڈ کے خلاف ہے۔ ان طالبات کی تعداد 6 بتائی جاتی ہے۔ کالج کی یہ طالبات پہلے سے اپنا حجاب پہن کر آتی رہی تھیں۔

معاملہ صرف ایک کالج کی 6 بچیوں کا تھا اور اس پر اسکول انتظامیہ کا اپنا رویہ اور نظریہ تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ الگ سوال ہے اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایک کالج کا اندرونی معاملہ کیسےنیشنل اور پھر انٹرنیشنل اشو بن گیا۔ پورے شہر، پوری ریاست اور پورے ملک میں اس پر بحث اور سیاسی بیان بازی شروع ہوگئی اور اترپردیش کی انتخابی ریلیوں میں ’اسٹار پرچارک‘ اسے اپنا موضوع بناتے دکھائی دینے لگے۔ میڈیا میں ایسا تاثر دیا گیا جیسے یہ بچیاں اچانک ایک دن حجاب پہن کر کالج آگئیں اور انھوںنے کالج کے ڈریس کوڈ کی منصوبہ بند خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ بعض سیاسی رہنماؤں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان لڑکیوں نے PFI (پاپولر فرنڈ آف انڈیا) کی شہ پر حجاب پہنا ہے، جو ایک غلط اور بے حقیقت بات ہونے کے ساتھ ساتھ معاملے کو سیاسی رخ دینے کی بھی منصوبہ بند کوشش ہے۔

ملک کے تقریباً سبھی سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں ڈریس کوڈ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے جس کا تمام طلبہ ’پالن‘ کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ طلبہ و طالبات اپنی پسند سے اپنی مذہبی، سماجی اور خاندانی روایات کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اسی انداز کا لباس پہن کر اسکول جاتے ہیں۔ ان میں مسلم طالبات بھی ہیں جو اسکارف اور حجاب پہن کر جاتی ہیں اور دیگر طلبہ و طالبات بھی ہیں جو پگڑی پہن کر یا سر ڈھانپ کر جاتے ہیں۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوجاتا ہے کہ اس پر کچھ خاص لوگ پورے ملک میں بحث شروع کردیتے ہیں اور بحث کا موضوع پگڑی یا اور کوئی چیز نہیں ہوتی صرف مسلم لڑکیوں کا حجاب ہوتا ہے۔

آج تک اس سلسلے میں ہندوستانی سماج کی کیا روایت رہی ہے اور حکومتوں کا کیا انداز فکر و عمل رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے اور اب بدلتا منظرنامہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اب جبکہ اس معاملہ کو ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں مذہبی شناخت پر مبنی ڈریس کو ممنوع سمجھا جاتا رہا ہے یا یہ ہندوستانی سماج کی کثرت میں وحدت کی علامت اور مذہبی اکائیوں کے حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں ہم ملک کے باوقار تعلیمی ادارے ’’کیندریہ ودیالے‘‘ کے نظام کو دیکھتے ہیں جو ملک میں معیاری تعلیم کے لیے معروف ہے اور جو ملک کے مرکزی تعلیمی نظام کے تحت چلتا ہے۔ یہ اسکول چین مرکزی حکومت کے ان کارکنان کے بچوں کے لیے قائم کی گئی تھی جو ٹرانسفر نظام کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری خدمات کے لیے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

کیندریہ ودیالے کی گورننگ باڈی نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ٹیکنالوجی سے اپنے لیے ڈریس ڈیزائن کروایا۔ اس ڈریس میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ سکھ اور مسلم طلبہ و طالبات کے لیے حجاب اور پگڑی کا بھی اہتمام ہو۔ چنانچہ اس ڈریس میں مسلم لڑکیوں کے لیے، اگر وہ پہننا چاہیں تو اسکول ڈریس کے کلر کا جو ’گرے کلر‘ تھا حجاب منتخب کیا گیا۔ سکھ طلبہ کے لیے پگڑی کا کلر بھی گرے ہی چنا گیا اور اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو گرے کلر کا کنٹراسٹ، لال یا کوئی اور کلر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ڈریس کوڈ میں مسلم طالبات کے لیے حجاب کو اور سکھ طلبہ کے لیے پگڑی کو کو اصولی طور پر نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس کی تعیین بھی کردی گئی۔ اس طرح حجاب کا استعمال مسلم طالبات کے لیے ان کے حق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

یہ تو اپنے ملک کی بات ہوئی۔ اب دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں حجاب کے سلسلے میں کیا روش رہتی ہے اس کا بھی جائزہ لے لیا جائے تو اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ سیاست دانوں کی موجودہ روش کہاں کھڑی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ 1989 میں فرانس میں حجاب کے خلاف مہم شروع ہوئی، اور یہ مہم بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ 2004 میں فرانس میں حجاب پر مکمل پابندی نافذ ہوگئی۔ فرانس کو اس مسئلے پر عالمی برادری کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی اور یہ ملک اس روش میں یکتا اور تنہا ملک ہے۔ اس کے برخلاف امریکہ کو دیکھیں جو ایک طرح سے واحد سپر پاور ہے اور دنیا اس وقت اسی کے چنگل میں ہے۔ امریکہ کا ایک چہرہ دنیا بھر میں مسلم دشمنی کے لیے جانا جاتا ہے، جس سے علیحدگی کی امریکہ ہمیشہ سے کوشش کرتا رہا ہے۔ حجاب کے معاملے میں امریکہ کا رویہ بالکل الگ اور قابلِ تقلید اور قابلِ ستائش ر ہا ہے۔

یہاں ہم 2004 کے ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جب ’’اوکلاہوما‘‘ کے ایک اسکول بنجامن فرینکلن سائنس اکیڈمی، نے ایلیکسا اکوسٹا نامی طالبہ سے حجاب اتارنے کو کہا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ یہ میرا بنیادی حق اور میری ڈگنٹی (وقار) ہے۔ بات بڑھی اور عدالت تک پہنچ گئ۔ اس موقع پر امریکی فیڈرل گورنمنٹ نے اسکول کے بجائے اس لڑکی کا ساتھ دیا اور فیڈرل اٹارنی جنرل نے اس لڑکی کا کیس لڑا۔

یہ بات افغانستان،یمن، سعودی عرب یا پاکستان کی کٹر پنتھی سرکاروں کی نہیں امریکہ کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ 30 جون 2015 کو امریکی ریاست نیوجرسی کے کلفٹن اسکول میں ایک طالبہ کو Best Dress کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ طالبہ فلسطینی تھی اور حجاب پہن کر اسکول آتی تھی۔

برطانیہ نے بھی حجاب کے سلسلے میں قابل قدر مثال ابھی چند سال پہلےپیش کی۔ بات 29 جون 2019 کی ہے جب سینٹ جون تھرڈولڈ کمیونٹی کالج کے طلبہ اور ان کے سرپرستوں نے احتجاج کیا کہ ان کے بچوں کے لیے جو نیا حجاب ڈیزائن کیا گیا ہے وہ غیر آرام دہ اور عجیب و غریب رنگ کا ہے، اسے پہن کر طالبات آرام محسوس نہیں کرتیں۔ اس کے لیے انھوںنے آن لائن پٹیشن بھی ڈالی اور مہم چلائی جس پر حکومت کے متعلقہ ادارے نے یقین دہائی کرائی کہ اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اچھی طرح دیکھ سمجھ کر بچیوں کے حق میں فیصلہ لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہاں مسئلہ حجاب کے جواز یا پابندی کا نہیں صرف ڈیزائن میں تبدیلی سے ہونے والی زحمت کو ختم کرنے کا تھا۔

اس سلسلے میں افریقی ملک نائیجیریا کی مثال بھی بہت خوب ہے جہاں عیسائی اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریباً یکساں ہے۔ نارتھ نائیجریا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جبکہ ساؤتھ میں عیسائی رہتے ہیں۔ اچانک وہاں پر مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے پر روک لگادی گئی۔ معاملہ کورٹ پہنچا جہاں پانچ ججوں کی بینچ نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ان پانچ ججوں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔

یہ ہیں دنیا کے دو مہذب ترین ملکوں کی تصویریں اور ایک افریقی ملک کا رویہ جہاں مسلم و عیسائی مل جل کر زندگی جیتے ہیں اور ایک سیکولر حکومت منتخب کرتے ہیں۔

ریاست کرناٹک اپنے جغرافیائی وجود کے اعتبار سے جنوبی ہند کا گیٹ وے ہے، چنانچہ نفرت کی سیات کرنے والوں نے اس پر خصوصی توجہ کی ہے اور شمالی ہندوستان میں کامیابی کے بعد وہاں سیاسی زمین تلاش کرنے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے محنت کی ہے اور اب بھی کررہے ہیں۔ کرناٹک میں حجاب کے خلاف یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے پہلے 2009 میں کالج کے طلبہ ایک ٹیچر کے حجاب پہننے پر بوال مچا چکے ہیں۔ 2018 میں بنگلور کے ایک کالج میں بھی ایسا ہوچکا ہے اور اس حالیہ مہم کے احوال و کوائف سے باشعور قارئین باخبر ہیں۔ وہ یہ بھی اچھی طرح دیکھ رہے ہیں کہ کون اس مسئلہ کو لے کر اڑ رہا ہے اور اس سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اگر ہم واقعی ایک سیکولر، ترقی پسند (Progressive)قوم ہیں اور ہمیں اپنے شہریوں کے مسائل اور ان کے حل سے دلچسپی ہو تو ہماری روش امریکہ اور برطانیہ جیسی ہوگی اور ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے ملک میں جمہوری قدروں کے فروغ اور انسانی آزادی اور مذہب کے احترام کا جذبہ رکھتے ہیں تو ایک بچھڑا ہوا افریقی ملک ہمارے لیے مثال بن سکتا ہے۔ مگر حقیقت میں ہم یہ شاید چاہتے ہی نہیں، نہ ہی ہمیں اپنے شہریوں کی تشاویش کو حل کے نظریے سے دیکھنے کی عادت ہے۔ اگر ہماری حکومتیں ذمہ دار اور ایک مضبوط و مستحکم اور ہم آہنگ سماج کی تعمیر کی خواہش مند ہوتیں تو ان کی روش کچھ اور ہوتی مگر بدقسمتی ہے کہ موجودہ روش سماج کو مذہب اور فرقوں کی بنیادوں پر تقسیم کی ہے۔

یہ تو حجاب مخالف لوگوں کا رویہ ہے، جن سے ہم کسی خیر کی امید کیسے کرسکتے ہیں، لیکن یہاں حجاب کے حامیوں کی نادان دوستی کا رویہ بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہے۔ یہاں پر بھی سیاسی رنگ چھایا ہوا نظر آتا ہے تو وہ بھی جانے ان جانے میں اسی ایجنڈے پر کام کرتے نظر آئے، جس پر وہ لوگ کررہے تھے جن کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔ کرناٹک کے حجاب تنازعے پر سیاست کی روٹیاں ہمارے کچھ لوگوں نے سینکنے کی کوشش کی اور کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ’صاحبِ خیر‘ نے تو اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والی طالبہ کو پانچ لاکھ روے انعام دینے کا اعلان کردیا۔ یہ ہمارے سیاست دانوں کی سیاسی کم نظری کہیں یا مفاد پرستی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو خواہ وہ قابل حل ہو، لاینحل بنانے میں ’اہم کردار‘ ادا کرتے ہیں۔

ہمارے خیال میں اس نام نہاد مسلم قیادت کا احتساب بھی ضروری ہے اور ان کے مقاصد و عزائم کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید اداریے

سماج میں نفرت کا زہر نہ گھولیں!

کسانوں کی فتح

بہادری اور عزم و حوصلہ کی جانب!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں