گواہی

راج نارائن وہرے مترجم: ڈاکٹر خان حفیظ

ایک برے خواب سے میں پیسنے پیسنے ہوگیا تھا۔

کیا دیکھا تم نے؟ جب تو نیرندھی کے چیمبر میں اندر گیاتھا؟ وکیل کا رویہ دیکھ میں حیرت میں پڑ گیا تھا۔ میںنے سوچا کہ مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہونے والے آدمی سے سارے وکیل کیا ایسے ہی سوال کرتے ہیں؟ میں بری طرح گھبرا گیا تھا اور کچھ التجا کرنا ہی چاہتا تھا کہ گلا خشک ہوگیا۔ پھر نہ جانے کیسے میری نیند کھل گئی۔ مجھے رہ رہ کر آنے والے کل کا دھیان آرہا تھا۔ کل عدالت میں میری گواہی تھی۔ ایک خاص مقدمہ تھا، جس پر سارے صوبہ کی آنکھیں ٹکی تھیں۔

مقدمے کا خیال آتے ہی مجھے کپکپی آئی۔ہر بار کی طرح لگا کہ کاش میں موقع واردات پر حاضر نہ ہوتا۔ یا پھر میں بہادری دکھاتے ہوئے نیرندھی کو نہ بچاتا۔ چلو بچا بھی لیا تھا تو پولس اور نامہ نگاروں سے کچھ نہ کہتا۔ اب تو میں دو دھاری تلوار پر کھڑا ہوں۔ ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔ عدالت میں کل کیا کہوں گا؟ … اور ساری گھٹنا ایک بار پھر میری آنکھوں میں گھوم جاتی ہے۔

اس دن ہم سب دفتر کے بڑے ہال میں موجود تھے کہ گیارہ بجے روز کی طرح نیرندھی صاحب تمام نمشکار قبول کرتے اپنے چیمبر میں گئے اور روز کی طرح ہم لوگ تفریح ومذاق میں لگ گئے۔ اکثر دفتر والے ان کی ایمان داری اور میل جول کی تعریف کیا کرتے ہیں۔ سارا شہر جانتا تھا کہ نیرندھی صاحب ایک ہیرا آدمی ہیں۔ گاؤں کی کچی گلیاں ہوں یا شہر کی گندی بستی نیرندھی صاحب ہر اس جگہ موجود ہوتے جہاں ہمارے محکمے کے چھوٹے کرم چاری کام کر رہے ہوتے۔ ساری زندگی سادے طریقہ سے رہنے اور پوری توانائی سے کام کرنے میں ہی گزار دی انہوں نے۔ حالاں کہ اردلی بھی کہتے ہیں کہ میم صاحب بھی بڑے دل والی ہیں اور اپنے پتی کو ان کی ایمانداری کے لیے کبھی طعنہ نہیں دیتیں۔ خواہ پریشانی میں گزر کرلیں۔

تب بارہ سے کچھ کم کا وقت ہو رہا تھا کہ دفتر کے باہر تیز ہلچل سنائی دی، پہلے لگا کہ بجلی بل جمع کرنے والوں کی بھیڑ ہے۔ سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے کہ اچانک ایک بھیڑ ہال کے بڑے دروازے سے اندر گھس آئی اور ہم سب چوکنے سے اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوگئے۔

… کون ہیں آپ؟ کیا کام ہے؟ بڑے بابو نے دفتری اکڑ کے ساتھ دریافت کیا۔

چست سفید کرتا پاجامہ اور کندھے پر رنگین گمچھا ڈالے گورا اور تگڑا نوجوان غرایا۔ عوامی نیتا سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ میں ایک مشہور پارٹی کا صدر رکچھا پال ہوں۔

لمحہ بھر کے اندر بڑے بابو کے اندر بیٹھا کلرک بیدار ہوگیا، بولے … ساری بھیا میں پہچان نہیں پایا، کبھی کام نہیں پڑا۔

یہی تو!… یہی تو ڈھیل ہے۔ ہماری پارٹی والوں کی۔ تم جیسے دو کوڑی کے نوکر تک ہمیں نہیں پہچانتے۔ ہم تو آج ایک دم چوکھا حساب کرنے آئے ہیں کہ تم جو روز روز من مانے ڈھنگ سے بجلی کی کٹوتی کرتے رہتے ہو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

…آپ بیٹھو تو سہی بھیا … آئیے آپ بھی بیٹھئے۔ اپنی بے عزتی پیتے بڑے بابو نے۔ اس کے ساتھ والے لوگوں سے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

… ابے چپ کر، تیرا افسر کہاں ہے؟ اس سے بات کرنے آئے ہیں ہم، کہاں بیٹھتا ہے رشوت خور۔

بڑے بابو کی منت سماجت کے باوجود نرم ہونے کی جگہ وہ نوجوان اور مشتعل ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بڑے بابو کانپ اٹھے۔ تھرتھراتے بڑے بابو نے کانپتی انگلی سے اس کمرے کی طرف اشارہ کر دیا۔ جدھر نیرندھی صاحب کا چیمبر تھا۔ سیاست میں غنڈہ گردی کا داخلہ کا پہلا تماشا تھا۔ ہمارے سامنے لگا شہر کی دیوار ہی ٹوٹ گئی ہو۔ ہاہا کار بہتے پانی کی دیوار ہی ٹوٹ گئی ہو، باہر کھڑے ان کے خدمت گزار اندر گھس گئے۔ ان سب کی آنکھوں میں عجیب قسم کے تشدد کی آگ تھی۔

یہ دیکھ کر سب سے پہلے بڑے بابو نے الماری لاک کی اور آہستہ سے باہری دروازے کی طرف بڑھ گئے، پھر ورما جی پھر کھرے، چترویدی، شرما وغیرہ۔ ایک ایک کر کے سارا اسٹاف دفتر سے باہر نکل گیا۔ صرف میں اکیلا اداسی سے وہاں بیٹھا رہ گیا۔ اتنے بڑے ہال میں جس میں سیکڑوں سے زیادہ آدمی سما سکتے ہیں۔ میری چھٹی حِس نے مجھے احساس دلایا کہ مجھے بھی یہاں سے کھسک جانا چاہیے۔ اس لیے بلا تاخیر کیے میں جھٹکے کے ساتھ اٹھا اور میزوں کے بیچ سے جگہ بنا کر باہر نکلنے والا ہی تھا کہ میرے پیر اپنے آپ ہی جکڑ گئے۔ نیرندھی صاحب کے کمرے میں سے ان کی تیز چیخ سنائی دی۔ مجھے ایسا لگا جیسے مجھے کرنٹ لگ گیا ہو اور ہوا کے پروں پر سوار میں دوڑ پڑا تھا نیرندھی صاحب کے کمرے کی طرف۔

اندر کا منظر ہر بھلے آدمی کو شرمسار کرسکتا تھا، لیکن میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ ہمارے دفتر کا معمولی افسر۔ بجلی وبھاگ کا وہ محنت کش اور ایماندار، انجینئر … عوام کی خدمت میں ہر وقت تیار رہنے والا… ہم سب ورکروں کی عزت کا نشان وہ ہمارا نمائندہ اس بھیڑ میں گھرا ہوا بے حد نازک حالت میں ان ظالموں کے ہاتھوں میں فٹ بال کی طرح اچھالا جا رہا تھا۔ اس کا سانولا چہرہ اس وقت کالے رنگ سے رنگ چکا تھا، جس کے بیچ بیچ میں خون کی لال لکیریں۔ مشتعل بھیڑ کے لوگ ان کے بے ترتیب ڈھنگ سے پیٹ رہے تھے۔ اور نیرندھی صاحب اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ جب کہ مشکل سے پانچ منٹ بیتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ صحت مند نیرندھی صاحب بے دم ہوچکے تھے اور اب نہ ان کے منہ سے چیخ نکل رہی تھی نہ بچانے کی آواز۔ ٹھیک تبھی بھیڑ کا شکنجہ ڈھیلا ہوا۔ وہ زمین پر اوندھے پڑے تھے۔ میں نے انہیں سیدھا کیا لیکن وہ تھے کہ ذرا بھی مدد نہیں کر رہے تھے۔ بہ مشکل تمام گھسیٹ کر میں انہیں کرسی پر بٹھانے میں کامیاب ہوا تو ان کا سر دھڑام سے میز پر رکھے کانچ سے جا ٹکرایا ان کے سر کو سیدھا کرتے ہوئے مدد مانگنے کی سعی کی تو پایا کہ فون چالو نہیں ہے۔ تار اکھاڑے جاچکے تھے۔

بعد کے لمحات نہایت کرب ناک تھے میری تمام کوششوں کے بعد بھی نیرندھی صاحب بچائے نہ جاسکے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے چیک کرنے کے بعد ان کی موت کا اعلان کر دیا۔ رات آٹھ بجے میں نے پولس کوتوالی میں ایک ایف آئی آر درج کروائی۔ اس وقت میڈیا کے چمچاتے کیمرے میں میرا بیان ٹیپ ہو رہا تھا۔ پولس نے میری شروعاتی بیان اگلے دن عدالت میں کروا دیے۔

اگلے دن مگر مچھی آنسو بہانے کے دن تھے۔ علاقہ کے مخالف پارٹی کے ایک بڑے نیتا بے حد صاف دل کے آدمی تھے۔ انہوں نے نیرندھی صاحب کی پتنی سے صاف صاف کہا… دیکھئے مسز نیرندھی آپ ہمت رکھئے۔ بھلے ہی ہماری سرکار نہ ہو آپ کے پتی کی موت سے جو نقصان ہوا ہم اس کی بھرپائی کرائیں گے۔ آپ کے بیٹے کو ہم نوکری دلوائیں گے۔ یہ تو ایک حادثہ تھا جو نہ چاہتے ہوئے ہوگیا۔ ایشور کی ایسی ہی مرضی تھی کہ نیرندھی صاحب کا جانا تھا وہ ہمارے نوجوان نیتا کے ہاتھوں نہ مرتے تو راستہ چلتے ٹھوکر کھاتے اور گر کر مر جاتے۔ اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے جی۔

مجھے تعجب ہوا کہ اس حادثہ کی جانچ بیس دن کے اندر ہی ہوگئی اور عدالت میں چالان بھی پیش ہوگیا۔ گواہ طلب ہوئے۔ گواہوں میں سب سے اول نام میرا تھا ایک طرح سے چشم دید گواہ تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ فالتو کے لفڑے میں نیرندھی صاحب کی جان گئی میں نے کمر کس لی تھی کہ ہر حالت میں ملزموں کو سزا دلواؤں گا۔ حالاں کہ اتنا آسان نہ تھا سزا دلوانا کیوں کہ ایک پوری پارٹی ملزموں کے پیچھے کھڑی تھی۔ حادثہ کے اگلے دن سے ہی میں محسوس کر رہا تھا کہ میرا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ اجنبی قسم کے غنڈے میرے آس پاس گھومتے رہتے ہیں۔ اچانک رات کو میرا فون بج اٹھا اور گھر کا جو فرد رسیور اٹھاتا تھا اسے گندی گالیوں کے ساتھ دھمکی دی جاتی تھی کہ اگر عدالت میں، میں نے منہ کھولا تو میری اور میرے گھر والوں کی خیر نہیں۔ روز روز کے فون سے تنگ آکر میری پتنی آنچل پسار کر مجھ سے اپنے سہاگ کی بھیک مانگتی ہے تو میرے بچے اپنے باپ کی زندگی۔

لیکن میں سوچتا ہوں کہ اس طرح اپنے بچوں کی خاطر سچ سے منہ موڑنا بھی تو بے ایمانی ہے۔ ویسے عدالت میں اپنے کہے ہوئے سے پلٹ جانا اتنا آسان بھی تو نہیں ہے جتنا پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ پھر عدالت میں پلٹ جانے سے عزت بچ جائے گی کیا میری؟ کل جب بازار سے جاؤں گا کسی گلی سے نکلوں گا تو لوگ مجھ پر طنز کریں گے۔ دنیا بھر میں تھوتھو ہوگی۔ نیرندھی صاحب کی بیوی کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ جہاں خوب ڈینگے مارا کرتا تھا۔ اپنی یونین کے سامنے کیا کہوں گا؟

ہاں! تو کیا کروں گا میں؟ تو؟ کیا کروں میں؟

عدالت میں کیا کہنا ہے یہ بیان۔ وہ بیان۔ وکیل ہی تیار کرائے گا سرکاری وکیل۔ بعد میں ملزموں کا وکیل بحث کرے گا مجھ سے۔ کیا کہوں گا میں یہ کہہ سکوں گا کہ میں نے دیکھا ہے۔ ان … ان اور ان کی اپنی آنکھوں سے نیرندھی صاحب کو پیٹتے؟

کل پتنی کہہ رہی تھی کہ تم فکر کیوں کرتے ہو، ان لوگوں کا وکیل پہلے ہی بتا دے گا۔ آپ کو کیسے کیا کرنا ہے، میں نے بات کرلی ہے وکیل سے، ویسے ایسی کوشش چل رہی ہے کہ عدالت میں آپ کے بیان ہی نہ کرائے جائیں۔

میں حیرت میں تھا کہ میرے گھر سے نہ نکلنے والی گھریلو ہاؤس وائف (بیوی) کو ایسی دنیاداری کہاں سے آگئی کہ راستہ نکال لیا اس نے ان تمام پریشانیوں سے باہر نکلنے کا۔

صبح ہو رہی تھی۔ آسمان میں سونے سا پہلا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ میں اٹھا اور روزانہ کے کاموں میں لگ گیا۔ جلدی سے اپنے سارے کام نمٹالوں تاکہ وکیل کے ذریعہ بتائے گئے مکالموں کورٹ سکوں اور عدالت میں انہیں اسی طرح دہرا سکوں… کہ فون کی گھنٹی بجی میں نے لپک کر اٹھا یا تو پایا کہ ادھر سے نیرندھی صاحب کی پتنی کی آواز تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں… بھیا! جسے جانا تھا وہ چلا گیا۔ آپ آج پیشی میں ایسا کچھ مت کہنا کہ آپ کے گھر والوں پر کوئی پریشانی آجائے۔ اب مرنے والے کے ساتھ مرا تو نہیں جاتا۔ ہم لوگ بھی اب سزا دلانے پر زیادہ زور نہیں ڈالیں گے۔

یہ بات جب میرے گوش گزار ہوئی تو میرے اندر ایک طرح کا جمود طاری ہوگیا۔ بلکہ خوف سے لرز گیا۔ اندر ہی اندر میرا وجود برف کی مانند پگھلنے لگا اور مجرم کو سزا دلانے کے عزم کے بادل چھٹنے لگے لیکن جانے کیوں باہر کی فضا میں ایک عجیب سی گھٹن اور امس بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی سی لگ رہی تھی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں