سوال: ہمیں معلوم ہوا تھا کہ ہندوستان کی ایک ہاکی کھلاڑی آرہی ہیں تو ہم سوچ رہے تھے کہ آپ ہاکی کی ڈریس میں آئیں گی مگر آپ ماشاء اللہ برقعہ میں ملبوس اور دستانے پہن کر مکمل پردہ میںہیں، آپ اپنے گھر سے برقعہ اوڑھ کر کیسے آئی ہیں؟
جواب: میں الحمدللہ پچھلے دو ماہ سے سوفیصد شرعی پردہ میں رہتی ہوں۔
سوال: ابھی آپ کے گھر میں تو کوئی مسلمان نہیں ہوا؟
جواب: جی، میرے گھر میں ابھی میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے مگر اس کے باوجود میں الحمدللہ کوشش کرتی ہوں کہ میں اگرچہ گھر میں اکیلی مسلمان ہوں مگر آدھی مسلمان تو نہ بنوں، آدھی ادھر آدھی ادھر یہ تو نہیں ہونا چاہیے۔
سوال: آپ کو ہاکی کھیلنے کا شوق کیسے ہوا، یہ تو بالکل مردوں کا کھیل ہے؟
جواب: اصل میں، میں ہریانہ کے سونی پت ضلع کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ ہمارے گھر میں سبھی مرد پڑھے لکھے ہیں اور اکثر کبڈی کھیلتے رہتے ہیں۔ میں نے اسکول میں داخلہ لیا۔ شروع سے کلاس میں ٹاپ کرتی رہی، سی بی ایس ای بورڈ میں میری ہائی اسکول میں گیارہویں پوزیشن رہی، مجھے شروع سے مردوں سے آگے نکلنے کا شوق تھا۔ اس کے لیے میں نے اسکول میں ہاکی کھیلنا شروع کیا، پہلے ضلع میں نویں کلاس میں سلیکشن ہوا، پھر ہائی اسکول میں ہریانہ اسٹیٹ کے لیے لڑکیوں کی ٹیم میں میرا سلیکشن ہوگیا۔ بارہویں کلاس میں بھی میں نے اسکول ٹاپ کیا اور سی بی ایس ای بورڈ میں میرا نمبر اٹھارہواں رہا، اسی سال میں انڈیا ٹیم میں سلیکٹ ہوگئی، عورتوں کے ایشیا کپ میں بھی کھیلی اور بہت سے ٹورنامنٹ میری کارکردگی کی وجہ سے جیتے گئے، اصل میں ہاکی میں بھی سب سے زیادہ ایکٹیورول سنٹر فارورڈ کھلاڑی کا ہوتا ہے، یعنی سب سے آگے درمیان میں کھیلنے والی کھلاڑی کا، میں ہمیشہ سنٹر فارورڈ کھیلتی رہی، اصل میں بس مردوں سے آگے بڑھنے کا جنون تھا، مگر روزانہ رات کو میرا جسم مجھ سے شکایت کرتا تھا کہ یہ کھیل عورتوں کانہیں ہے، مالک نے اپنی دنیا میں ہر ایک کے لیے الگ کام دیا ہے۔ ہاتھ پاؤں بالکل شل ہوجاتے تھے، مگر میرا جنون مجھے دوڑاتا تھا اور اس پر کامیابی اور واہ واہ اپنے نیچر کے خلاف دوڑنے پر مجبور کرتی تھی۔
سوال: اسلام قبول کرنے سے پہلے تو آپ کا نام پریتی تھا نا؟
جواب: جی ہاں، حضرت نے میرا نام ابھی حال ہی میں عفیفہ رکھا ہے۔
سوال: آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟
جواب: وہ ایک اسکول چلاتے ہیں، اس کے پرنسپل ہیں۔ وہ سی بی ایس ای بورڈ کا ایک اسکول چلاتے ہیں۔ میرے ایک بڑے بھائی اس میں پڑھاتے ہیں۔ میری بھابی بھی پڑھاتی ہیں وہ سب کھیل سے دلچسپی رکھتے ہیں، میری بھابی بیڈ منٹن کی کھلاڑی ہیں۔
سوال: ایسے آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کے بعد ایسے پردہ میں رہنا آپ کو کیسا لگتا ہے؟
جواب: انسان اپنے نیچر سے کتنا ہی دور ہوجائے اور کتنے زمانے تک دور رہے، جب اس کو اس نیچر کی طرف آنا پڑتا ہے تو وہ کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرے گا وہ ہمیشہ محسوس کرے گا کہ اپنے گھر لوٹ آیا، اللہ نے انسان کوبنایا، اور عورتوں کی نیچر بالکل الگ بنائی، بنانے والے نے عورت کا نیچر چھپنے اور پردہ میں رہنے کا بنایا، اسے سکون و چین لوگوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچے رہنے میں ہی مل سکتا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے جس کے سارے حکم انسانی نیچر سے میل کھاتے ہیں، مردوں کے لیے مردوں کے نیچر کی بات اور عورتوں کے لیے عورتوں کے نیچر کی بات۔
سوال: آپ کی عمر کتنی ہے؟
جواب: میری تاریخ پیدائش ۶؍جنوری ۱۹۸۸ء ہے۔ گویا میں ۲۲؍سال کی ہوچکی ہوں۔
سوال: مسلمان ہوئے کتنے دن ہوئے؟
جواب:ساڑھے چھ مہینے کے قریب ہوئے ہیں۔
سوال: آپ کے گھر میں آپ کے اتنے بڑے فیصلے پر مخالفت تو نہیں ہوئی؟
جواب: ہوئی او ر خوب ہوئی۔ مگر سب جانتے ہیں کہ عجیب دیوانی لڑکی ہے، جو فیصلہ کرلیتی ہے پھرتی نہیں، اس لیے شروع میں ذرا سختی کی مگر جب اندازہ ہوگیا کہ میں دور تک جاسکتی ہوں تو سب موم ہوگئے۔
سوال: آپ ہاکی اب بھی کھیلتی ہیں؟
جواب: اب ہاکی میں نے چھوڑدی ہے۔
سوال: اس پر تو گھر والوں کو بہت احساس ہوا ہوگا؟
جواب: ہاں ہوا، مگر اپنے بارے میں فیصلہ لینے کا مجھے حق تھا میں نے لے لیا اور میں نے اللہ کا حکم سمجھ کر لیا۔ اب اللہ کے حکم کے آگے بندوں کی چاہت کیسے ٹھہرسکتی ہے۔
سوال: آپ کے اسلام میں آنے کا کیا چیز ذریعہ بنی؟
جواب: میں ہریانہ کے اس علاقے کی رہنے والی ہوں جہاں کسی ہندو کا مسلمان ہونا دور کی بات ہمارے چاروں طرف کتنے مسلمان ہیں، جو ہندو بنے ہوئے ہیں۔ خود ہمارے گاؤں میںبادی اور تیلیوں کے بیسیوں گھر ہیں جو ہندو ہوگئے ہیں۔ مجھے اسلام کی طرف وہاں جاکر رغبت ہوئی جہاں جاکر خود مسلمان اسلام سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
سوال: کہاں سے کس طرح بتائیں گی؟
جواب: میں ہاکی کھیلتی تھی تو بالکل آزاد ماحول میں رہتی تھی، آدھے سے کم کپڑوں میں ہندوستانی روایات کا خیال بھی ختم ہوگیا تھا، ہمارے اکثر کوچ مرد رہے۔ ٹیم کے ساتھ بھی کچھ مرد رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ٹیم میں ایسی بھی لڑکیاں تھیں جو رات گزارنے بلکہ خواہشات پوری کرنے میں ذرہ برابر کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ میرے اللہ کا کرم تھا کہ مجھے اس نے اس حد تک نہ جانے دیا۔ گول کے بعد اور میچ جیت کر مردوں عورتوں کا گلے لگ جانا، چمٹ جانا تو کوئی بات نہیں تھی، میری ٹیم کے کوچ نے کئی دفعہ بے تکلفی میں میرے ساتھ کسی شاٹ پر ٹانگوں پر چٹکیاں بھریں، میں نے اس پر نوٹس لیا، اور ان کو وارننگ دی، مگر ٹیم کی ساتھی لڑکیوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ اتنی بات کو تم دوسری طرح لے رہی ہو، مگر میرے ضمیر پر بہت چوٹ لگی، ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنے ڈنمارک گئی، وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہاں کی ٹیم کی سنٹر فارورڈ کھلاڑی نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کرکے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اور ہاکی کھیلنا چھوڑ دیا ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے شادی کے لیے اس لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے، مجھے یہ بات عجیب سی لگی، ہم جس ہوٹل میں رہتے تھے، اس کے قریب ایک پارک تھا، اس پارک سے ملا ہوا ان کا مکان تھا، میں صبح کو اس پارک میں تفریح کررہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا کہ وہ سامنے برٹنی کا گھر ہے، جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہیں۔ اس نے اپنا نام اب سعدیہ رکھ لیا ہے اور گھر میں رہنے لگی ہے۔ مجھے اس سے ملنے کا شوق ہوا، میں ایک ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے گھر گئی، وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جانے والی تھی، بالکل موزے، دستانے اور پورے برقعہ میں ملبوس، میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور ہم دونوں ہنسنے لگے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھے پہچانتی تھی۔ وہ بولی میں نے تمہیں کھیلتے دیکھا ہے۔ سعدیہ نے کہا:ہمارے ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے اس میں جانا ہے، ورنہ میں آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرتی۔ میں تمہارے کھیلنے کے انداز سے بہت متاثر ہورہی ہوں۔ ہاکی کھیل عورتوں کے نیچر سے میل نہیں کھاتا، میرا دل چاہتا ہے کہ تمہاری صلاحیتیں نیچر سے میل رکھنے والے کاموں میںلگیں۔ میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا آپ میرے کھیل کے انداز سے متاثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں اور میں آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑدی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں۔ سعدیہ نے کہا اچھا آج رات کو ڈنر میرے ساتھ کرلو، میں نے کہا آج تو نہیں، کل ہوسکتا ہے۔ طے ہوگیا، میں ڈنر پر پہنچی تو سعدیہ نے اپنے قبولِ اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کے لیے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی، اس نے فون کرکے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کا بلایا، جو ان کے محلہ میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں، وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردے کی حکم کی خبر بتاتی رہیں اور بہت اصرار کرکے مجھے برقعہ پہن کر باہر جاکر آنے کو کہا۔ میں نے برقعہ پہنا، ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں، میں نے برقعہ پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر وہ برقعہ میرے دل میں اترگیا، میں بیان نہیں کرسکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اس کی خواہش کے لیے برقعہ پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آرہی تھی، میں نے برقعہ اتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقعہ پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کے ماحول میں جب برقعہ پرویسٹرن حکومتوں میں پابندی لگائی جارہی ہے۔ برقعہ پہننا کیسے ممکن ہے اور غیر مسلم کا برقعہ پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں، وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں۔ میں نے معذرت کی کہ میں اس حال میں نہیں ہوں، ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہے۔ میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔ سعدیہ نے کہا مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقعہ میں لانا ہے، میں نے اپنے اللہ سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کرکے دعا کی ہے۔ اس کے بعد ہم دس روز تک ڈنمارک میں رہے وہ مجھے فون کرتی رہی، دوبارہ ہوٹل میں ملنے آئی اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔
سوال: آپ نے وہ کتابیں پڑھیں؟
جواب: کہیں کہیں سے دیکھتی ہوں۔
سوال: گھر والوں کو آپ نے دعوت نہیں دی؟
جواب: ابھی دعا کررہی ہوں اور قریب کررہی ہوں۔ میں نے ایک کتاب ’’ہمیں ہدایت کیسے ملی؟‘‘ ہندی زبان میں، گھر والوں کو پڑھوائی، سب لوگ حیرت میں رہ گئے اور اللہ کا شکر ہے ذہن بدل رہا ہے۔
سوال: آپ عورتوں کو کوئی پیغام دیں گی؟
جواب: عورت کا بے پردہ ہونا اس کی حد درجہ توہین ہے۔ اس لیے مرد حضرات خدا کے لیے اپنے چھوٹے مطلب اور اپنا بوجھ ان پر ڈالنے کے لیے ان کو بازاروں میں پھرا کربازاری بنانے سے باز رہیں، اور عورتیں اپنے مقام اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے اسلام کے پردہ کے حکم کی قدر کریں۔ (بشکریہ: روزنامہ منصف)مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانمباڑی
——